بیوی کی حالت اب پاگلوں والی ہے‘ پورے محلے میں کبھی کسی کے گھر تو کبھی کسی کے ساتھ لڑائی رہتی ہے جس جس کو سود پر پیسہ دیا تھا وہ سب مُکر گئے کیونکہ کوئی ثبوت نہ تھا۔ سود پر کاروبار کرنے والے سمجھ جائیں کہ سود حرام ہے‘ حرام کھانے والے کا پورا گھرانہ برباد ہوتا ہے۔
(ع۔ا‘ لاہور)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! عبقری میں کئی مکافات پر مشتمل خط آپ نے شائع کیے جنہیں پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جو بوتا ہے اسے وہ کاٹنا ہی پڑتا ہے۔ آج میں بھی ایک سچا واقعہ لکھ رہی ہوں جو کہ سود لینے والوں کے لیے عبرت ہوسکتا ہے۔ہمارے ایک عزیز ہیں ان کا کام سود پر پیسہ دینا تھا صاحب اولاد تھے۔ 4بیٹے اور 7بیٹیاں تھیں‘ گھر میں پیسے کی کمی نہ تھی‘ ہر طرح کا عیب کرتے تھے اور بیوی پر بے پناہ تشدد کرتے تھے‘ غیرعورتوں سے ناجائز تعلقات تھے۔ پیسے کی وجہ سے کوئی کچھ نہ کہہ پاتا‘ پولیس والوں سے بھی اچھا تعلق تھا‘ گاؤں کے چوہدری تھے‘ غریب لوگ ان کے رعب میں تھے اگر کوئی کبھی کچھ بولتا جو کہ ناگوار لگتا تو اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی باز نہ رہتے۔ وقت گزرتا رہا بیوی کی ماں بیوہ عورت تھی‘ اپنی بیٹی کی حالت پر کڑھتی رہتی‘ ایک بار اپنی بیٹی کو پٹتے دیکھ کر بولی کہ خدا کا خوف کر تیری بھی بیٹیاں ہیں مگر وقت ایسے ہی گزرتا گیا۔ بچے بڑے ہوگئے‘ جیسا نوالہ کھلایا اولاد بھی ویسی ہی نکلی۔ بیٹوں میں بھی ہر طرح کا عیب تھا‘ شراب‘ زنا‘ جوا اور نشہ ہر طرح کا… پیسے کا رعب تھا۔ بیٹیوں میں بھی نہ کوئی تمیز‘ نہ اخلاق آخر کار بیٹیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ اب سنیں ان کے حالات:۔
ایک بیٹی کو ٹی بی ہوگئی‘ ساس بے حد لڑاکا ملی‘ دوسری بیٹی کا شوہر بے انتہا ظالم ہر روز مارپیٹ اور گھر سے نکال دیتا اور غیرعورتوں سے تعلقات بنائے رکھے۔ ایک بیٹی جس کے شوہر نے اس کی بدتمیزی اور زبان درازی کی وجہ سے دوسری شادی کرلی۔ ایک بیٹی کے سسرال والے لالچی اور شکی ملے شوہر بھی بیوی کی نہ سنتا تھا۔ ایک ویسے اولاد سے محروم… ایک کا شوہر شکی اور ظالم اور بوڑھا اور غیر عورتوں پر غلط نظر رکھنے والا… ایک کو ایسی بیماریاں لگیں کہ شادی کے قابل ہی نہ رہی۔اب سنیں بیٹوں کی… ایک کو کالا یرقان ہوا‘ ایک کی اولاد غصے والی اور یہ خودبُری صحبت کی وجہ سے مقروض تھا۔ ایک کو اولاد نرینہ کی کمی… صرف بیٹیاں ہی ہیں۔ ایک کے بچے اپاہج تھے اور بیوی بیمار تھی۔
چوہدری صاحب کی سنیں ساری زندگی عیش و عشرت میں گزری نہ بچوں کی طرف دھیان کیا نہ انہیں دین کی طرف توجہ دلوائی۔ بیوی بھی ان پڑھ تھی۔ وہ بھی بچوں پر توجہ نہ دے پائی۔ آخری وقت میں جاکر حج کیا اور نماز روزہ کی پابندی کی مگر خدا کی مرضی کہ کسی کے گھر میں سکون نہیں۔ تمام بیٹیاں دکھی ہیں۔ ایک دن اچانک اس کی موت ہوگئی‘ حالت ایسی خراب تھی کہ تقریباً 3 گھنٹے تک جان نہیں نکلی۔
بیوی کی حالت اب پاگلوں والی ہے‘ پورے محلے میں کبھی کسی کے گھر تو کبھی کسی کے ساتھ لڑائی رہتی ہے جس جس کو سود پر پیسہ دیا تھا وہ سب مُکر گئے کیونکہ کوئی ثبوت نہ تھا۔ کاش کہ سود پر کاروبار کرنے والے سمجھ جائیں کہ سود حرام ہے‘ حرام کھانے والے کا پورا گھرانہ برباد ہوتا ہے۔ شاید کوئی یہ تحریر پڑھ کر سود لینے اور دینے سے توبہ کرلے اور اس کی نسلیں تباہی سے بچ جائیں۔ آج اسی گاؤں کے لوگ اس کا نام بھی نہیں لیتے جہاں کبھی اسے دیکھ کر سب سلام کرتے تھے اور ہاں ان کے لیے دعا کردیں تاکہ وہ دکھی اور پریشان گھرانہ اپنی پریشانیوں اور دکھوں سے نجات حاصل کرسکے۔ آخر میں کہتی ہوں کہ خدا کاواسطہ حرام نہ کھاؤ ورنہ صرف بیماریاں‘ پریشانیاں اور دکھ ہی ملیں گے جیسے کہ انہیں ملے۔
انشورنس کا انجام تباہی و بربادی
راوی: جناب حاجی فیض محمد صاحب (تحریر: واجد بخاری ایڈووکیٹ)
آج کل یہ غلط سوچ جڑ پکڑ گئی ہے کہ کاٹن فیکٹری یا آئل ملز یا دوسری فیکٹریوں کو چلانے کیلئے بینک سے سود پر قرضہ لینا ضروری ہے ورنہ فیکٹری چل ہی نہیں سکتی۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے جس نے بھی بینک سے سود لیکر کاروبار شروع کیا ہے اس کا کاروبار تباہ وبرباد ہوگیا ہے۔ جب بھی بینک سے قرضہ لیتے ہیں تو بینک تمام سٹاک کی انشورنس کراتا ہے۔ اس طرح تمام سٹاک انشورڈ ہوتا ہے۔ پہلے میں بھی قرضہ لیتا تھا اب الحمدللہ چار سال سے قرضہ لینا بند کردیا ہے اور میرا یہ 50 سال کا تجربہ ہے جس نے بھی بدنیتی سے محض غلط انشورنس کلیم حاصل کرنے کیلئے خود ہی کپاس کو آگ لگائی ہے اور خود ہی شور مچایا ہے کہ آگ خودبخود لگ گئی ہے اور انشورنس کمپنی یا بینک سےمیل ملاپ کرکے غلط کلیم بنوا کر رقم حاصل کی ہے۔ وہ تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ اس کا تمام کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے اس کی فیکٹری ہمیشہ کیلئے بند ہوگئی اور خود کوڑیوں کامحتاج ہوگیا۔
میری فیکٹری میں سال 2000ء میں آگ لگ گئی تھی ہوا یوں کہ سیزن میں عید قربان آگئی۔ ایک چیل کہیں سے جانور کی آنت کا ٹکڑا لیکر آئی۔ آنت بڑی تھی فیکٹری کے اوپر سے گزرتے ہوئے آنت بجلی کی تار میں پھنس گئی۔ چنگاری نکلی کپاس نیچے پڑی ہوئی تھی اس میں آگ لگ گئی۔ آگ کو بجھانے کی کوشش کی گئی آگ بجھ گئی مگر پھر بھی تقریباً پونے دو لاکھ کی کپاس جل گئی۔ کپاس چونکہ انشورڈ تھی فوراً کمپنی والے آگئے۔ موقع ملاحظہ کیا۔ میری انشورنس تقریباً تیس لاکھ روپے کی تھی۔ کمپنی والوں نے اپنا تخمینہ لگایا کاغذ اپنے پاس رکھ لیا۔ میرے پارٹنر کو کہا کہ تخمینہ ہم نے لگالیا ہے آپ بتائیں۔
مجھے بلایا گیا اور پوچھا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ میرا پونے دو لاکھ کانقصان ہوا ہے۔ کمپنی والے حیران رہ گئے اور کہا کہ آپ بھول رہے ہیں۔ میں نے کہا نہیں میرا یہی نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہت کم سے کم تخمینہ لگاتے ہیں اور ہمارے نزدیک آپ کا نقصان چھ لاکھ روپے ہوا ہے اور ہم اتنی ہی رقم ادا کرسکتے ہیں۔ میں نے زائد رقم لینے سے انکار کردیا اور صرف پونے دو لاکھ روپے ہی وصول کیے۔ آپ یقین کریں کہ اس سال بہت زیادہ منافع ہوا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ صرف دھوکہ نہ دینے اور جھوٹ نہ بولنےکی وجہ سے ہوا۔ میں اپنے فیکٹری مالکان سے استدعا کرتا ہوں کہ محض غلط انشورنس کلیم حاصل کرنے کیلئے خدارا کپاس کو آگ مت لگائیں۔ کپاس کی قدرکریں۔
کپاس کی قدر کرنے کے بارے میں عجیب نظریہ سندھ میں دیکھا کہ وہ کپاس کے کھیت میں پیشاب وغیرہ نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کپاس سے کپڑا بنتا ہے اور کپڑے سے کفن بنتا ہے لہٰذا اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ آپ کپاس کی قدر کریں کپاس آپ کی قدر کرے گی۔
(انشورنس کی شرعی حیثیت علماء سے معلوم کرلیں۔ادارہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں